عظیم عالم دین


چودہویں صدی کے مجدد ہیں ۔امام احمد رضا،ولادت۱۰شوال۱۲۷۲ہ اور انتقال ۲۵ صفر۱۳۴۰۔۔۔۔۔تیرہویں صدی کے آپ نے۲۸ سال دو مہینہ ۲۰ دن پائے۔خدا داد ذہن وحافظہ بہی ملا تہاکھ ۱۳سال ،۱۰ماہ کی عمر میں مروجہ درسی کتابوں سے فراغت حاصل فرمائی۔۔۔ عموما علمائے کرام فارغ التحصیل ہونے کے بعد تصنیف وتالیف کے میدان میں قدم رکھتے ھیں لیکن اعلی حضرت نے طالب علمی کے زمانہ ہی میںتصنیف فرمانا شروع کر دیا تھا۔جس دن فارغ التحصیل ھوئے اسی دن سے فتوی لکھنا شروع کر دیا تھا۔پہلا فتوی جو لکھا،ایسا صحیح ودرست،مکمل ومدلل کہ والد ماجدصاحب عش عش کرگئےاوریہ سلسلہ۱۳سال دس مھینے کی عمر سے وصال۱۳۴۰ہ پورے ۵۴سال تک جاری رہا۔.. اعلی حضرت امام احمد رضا سید عالم صلی اللھ علیھ وسلم کی حدیث"العلماورثة الانبیا"کی منہ بولتی تصویرتھے۔ایک عالم دین کے لئے تمام علوم وفنون کا ماہر ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔یہی وجہ ھے کہ امام حمد رضا کو تمام علوم وفنون میں مہارت تامہ اور دسترس کاملہ حاصل تھی۔ہرہر سوال کا جواب قرآن وحدیث ،اقوال ائمہ،ائمہ مجتھدین وارشادات علمائے کرام کے ذریعے دلائل سے مزین اطمنان بخش عنایت فرماتے۔جس کا روشن ثبوت "العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ"کے عمیق مطالعہ سے بخوبی اہل علم حضرات لگا سکتے ھیں۔ اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کے ایک عظیم عالم دین ہونے کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی جملہ تصانیف کے مطالعہ سے لگایا جا سکتا ہےجن میں "الدولة المکیة بالمادةالغیبیہ،انوار الانتباہ فی حل ندائے یا رسول اللہ،فوزمبین دررد حرکت زمین،الکلمةالملھمة دررد فلسفہ قدیمہ،شمول الاسلام لاصول رسول الکرام،وغیرہ کتب کافی اہمیت کی حامل ھیں۔ امام احمد رضا کی عالمانہ تحقیق کا معیار نہا یت ہی بلند تھا۔انہوں نے اپنی تمام ہی تصانیف میں کسی نہ کسی موضوع پر کوئی نہ کوئی عظیم واعلی عالمانہ تحقیق پیش کی ھے۔آپ کی عالمانہ شان بیان کرتے ھوئے پاکستان کے ممتاز دانش ور مولانا کوثر نیازی تحریر کرتے ھیں۔۔"امام احمد رضا بر صغیر کے عظیم عالم دین ھیں۔وہ بیک وقت مصنف بھی ھیں اورمحقق بھی،شاعر بھی ھیں اورادیب بھی،ماھر ریاضی بھی ھیں اورھئیت داں بھی،مورخ بھی ھیں اور صوفی بھی،انھوں نے تقریبا ایک ہزار سے زائد کتابیںتصنیف کی ھیں،یہ سبھی اس پائے کی تحقیقی کتابیں ھیںکہ ان کے ایک ایک صفحے سے علم وتحقیق کے بے شمارچشمے پھوٹے ھیں"۔ مضمون:امام احمد رضاایشیا کاعظیم محقق،مشمولہ:قاری کاامام احمد رضا نمبر،ص۳۵۸> مفتی شریف احمد شریفی تحریر فرماتے ھیں۔۔۔"اعلی حضرت کے حواشی آپ کے ذھن رسا کی جودت وجدت کے آئینہ داراور تحقیقات رفعیہ، تدقیقات بدیعہ،تنقیحات جلیلہ،تشریحات جمیلہ پر مشتمل ھیں۔یہ عام مصنیفین کی طرح متون وشروح سے ماخوذ نھیں بلکہ خودآپکے افادات وافاضات ھیں۔ان کے عالمانہ تحقیقی جوہر کو دیکھتے ہوے کہنا پڑتا ھے کہ آپکےحواشی بھی مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتے ھیں"۔ <تذکرہ اکابراھل سنت،ص نمبر۹۳> اعلی حضرت امام حمد رضا،ماحی اھل بدعت،امام عصر،محدث بریلوی کی علمی تحقیقات کی عظمتوں کا اعتراف اھل تحریرو قلم نے جس وسیع ذھن اور کھلے دل سے کیا ھےوہ جہاں آپ کی علمی قد آوری کے شاہد ہیں وہیں آپکے انداز نگارش اور تحقیقی جواھرات کی عظمتوں کی زندہ مثال بھی ہیں۔جن کیوجہ سے امام اہل سنت،ماحی شرک وبدعت کا نام نامی اسم گرامی علم وتحقیق کی دنیا میں آفتاب وماہ تاب بن کر ہمیشہ چمکتارہے گا۔۔

اور بھی بے حساب و بے شمار کتب امام احمد رضا آپ کے ایک عظیم عالم دین ھونے کا بین ثبوت پیش کر رھی ھیں۔مثلا منبہ المنیہ بوصول الحبیب الی العرش والرویہ۔نامی رسالہ میں امام احمد رضا خاں فاضل بر یلوی نے ۔سائل کے ایک سوال ،معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی ھوئی یا جسمانی؟اوررویت باری تعالی ثابت ھے کہ نہیں؟مذکورہ بالا دونوں سوالوں کے جواب میں امام احمد رضا نے قرآن وحدیث،اجماع امت،اقوال ائمہ مجتہدین اورتحقیقات محدیثین کرام سے ثابت کیا کہ۔ ۔ ۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم جسم وجسمانیت کے ساتھ ہوئی ہےمعا دیدار الہی عزوجل بھی ثابت ومستحکم ہے۔قرآن مقدس کی بے شمار آیات واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ذخیروں سے معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت مندرجہ بالا کتاب میں لائق مطا لعہ ہے۔مطالعہ کریں اور ایمان وعقیدے کو مزید پختہ کریں۔ اور ایک کتاب مستطاب بنام ۔انوار الانتباہ بحل نداۓ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔میں امام احمد رضا نے اپنی عالمانہ شان وبان ،اپنی عظیم عالمانہ تحقیق کے ذریعے"یاحرف ندا کے ذریعے رسول اعظم علیہ التحیتہ والثنا کو پکارنےکو جائز قرار دیا ھے۔وحی متلو،اوروحی غیرمتلو، دونوں سے اثبات کا ایک بحر نا پیدا کنار بہا دیا ہے۔جس کا جواب دینےکی مخالفین میں طاقت و قوت کہاں۔۔ امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ یقینا امت مسلمہ کی ہدایت ورہنمائی کے لئےمنتخب بارگاہ الہی تھے۔اسی لئےتو ان کو اس صدی یعنی چودھویں صدی کا مجدداعظم بنا کر بھیجا گیا۔منصب مجددیت کو آپ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔تمام مراسم اہل سنت کو قرآن وحدیث والی استدلالی زبان عطا کی۔اور دو سو سے زائد علوم وفنون میں مہارت تامہ ودسترس کاملہ رکھتے ھوئے اس امت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کوایک ہزار سے زائد عظیم وعالمانہ بحث وتمحیص سے پر کتابیں دے گئے۔لیکن ایک عظیم عالم دین ھونے کا تعارف عندالناس آج تک کما حقہ نھیں ھو سکا ضرورت ھے کہ چودویں صدی کے مجدد،مجدداعظم امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات ستودہ والا صفات کا تعارف ان کی شان کے لائق اکناف عالم میں کیا جائے۔ ایک عظیم عالم دین وہی شخص ہو سکتا ہے جس کی نگاہ دین اسلام کے ہر گوشہ ونکات پرہوتی ہو۔امام احمد رضا خاںفاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلام کے تمام ارکان کی معلومات وآگہی پر پورےطور سےعبوریت حاصل تھی۔یھی وجہ ہے کہ آپ کی تمام تصانیف میں دلائل و براہین کے انبار نظر آتے ہیں۔جودور حاضر میں ہر مفتی کے لئےمآخذ ومراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔اورآج تمام مدارس اہل سنت میں آپ کے فتاووں کا مجموعہ ،اسلامی انسائیکلوپیڈیا،خصوصا فقہ حنفی کامواد عظیم۔ ۔ ۔العطایاالنبویہ فی الفتاوی الرضویہ۔کاموجود ھونا امام احمد رضا کے ایک عظیم عالم دین ھونے کا بین ثبوت ہے۔اوریہ عقیدت مندآنہ اظہار نہیں ہے بلکہ حقیقت بیانی ھی ہے کہ آج دنیا کے تقریباتمام دارالافتاء،فتاوی رضویہ کو آپنے پاس رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ نیز امام احمد رضا خاں محدث بریلوی کے زمانے میں ایک سر پھرا منجم البرٹ ایف پورٹا نے یہ دعوی غلط کیا کہ فلاں تاریخ کو پوری دنیا میں ھولناکی بپا ہو جائے گی امام احمد رضا خاں نےالبرٹ کے ردمیں ایک عظیم کتاب بنام۔ ۔ ۔ معین مبین بہر دور شمس وسکون زمین۔ ۔ ۔ تصنیف فرمائی۔

|  HOME  |